میٹرک سے میڈیکل ریپ تک

 

نیلی ٹوپی پہ لال نقطہ ملائیشیا کے کالے رنگ کی شلوار قمیض کا یونیفارم اورساتھ پشاوری چپل۔ چھ سال سے سرکاری اسکول میں پہن پہن کر ایک ہی خواہش تھی کہ کب کالج میں ایڈمیشن ملے گا اور کب مجھےاس یونیفارم اور پابندی سے آزادی ملے گی۔والد صاحب نے ساری عمر اسکوٹر اور اسکوٹر نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا یہاں تک کہ جب انھوں نے ایک ایف-ایکس گاڑی جو کہ اس وقت “صابن دانی” بھی کہلاتی تھی خریدی، لیکن اسکوٹر پھر بھی نہ چھوڑا۔اس گاڑی میں ہماری دو نسلیں جوان ہوئیں  ایک بابا کی دوسری  دادا کی گاڑی۔ اس گاڑی میں ہم نے سیر تو بہت کی لیکن یہ ارمان ہی رہا کہ والد صاحب کبھی چلانے کا موقع دیں۔ اور وہ آرزو ہی رہی۔ میں جب میں  نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو میرے والد صاب نے مجھ سے پوچھا کہ  ایف-ایس-سی میں کونسا سبجیکٹ لینا ہے ؟میں خاموش تھا۔انھوں نے پھر یہ پوچھا کہ اچھا یہ بتاو کہ ڈاکٹر بنو گے یا انجنئیر ؟

میں پھر خاموش رہا ۔ انھوں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ تم میتھس سبجیکٹ میں اچھے ہو لہذا تم انجنئیر بنو تمہارے لئیے” ایف-ایس- سی-پری انجنئیرنگ “ہی ٹھیک رہے گی۔میں اس وقت بھی خاموش ہی تھا۔مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ انجنئیر کیا ہوتا ہے اور وہ کرتا کیا ہے ؟

نمبر چونکہ اچھے تھے اس لئیے اس وقت ایک اچھے کالج میں ایڈمشن مل گیا۔ کالج انگلش میڈیم تھا سب سے پہلی کلاس کیمسٹری کی تھی میں سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا میرے ساتھ اس وقت کے مشہور  ایک انگلش اسکول سے پڑھا ہوا لڑکا بیٹھا ہوا تھا  ۔لیکچر انگلش میں تھا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میں بار بار اس لڑکے سے مطلب پوچھ رہا تھااور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں میرا مذاق اڑا رہا تھا۔ لیکچر اللہ اللہ کر کے ختم ہوا تو  پروفیسر صاحب بجائے باہر جانے کے سیدھا میری طرف آئے اور میرے سے اگلے بنچ پر اپنی ایک ٹانگ مبارک رکھ کر مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے تقریباً دو منٹ تک انگلش میں کچھ فرماتے ہوئے باہر چلے گئے۔ کلاس میں جتنے لڑکے تھے وہ یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ پروفیسر صاحب جیسے ہی باہر گئے تو میں نے اسی لڑکے سے پوچھا کہ پروفیسر صاحب کیا کہہ رہے تھے؟

یہ سن کر آدھی سے زیادہ کلاس قہقہے لگا رہی تھی سوائے چند ایک کے۔ شاید وہ بھی کسی اردو میڈیم اسکول سے تھے۔

بعد میں ان پروفیسر صاحب کے بارے میں پتہ لگا کہ وہ انتہائی قابل تھے اور پی۔ٹی۔وی۔ کے مشہور پروگرام نیلام گھر سے موٹر سائیکل جیت چکے تھے اور ان کی ایک عادت تھی کہ کلاس میں اگر کسی کو سزا دینی ہوتی تو انتہائی پیار سے اس  لڑکے کو اپنے انتہائی قریب بلا کر اپنے سر سے ایک ٹکر عنایت  فرماتے ۔ جس کا اثر ٹکر کھانے والے کو کم  ازکم  تین دن تک رہتا تھا۔ دو عدد ٹکریں  اس ناچیز نے بھی دو سال کے دوران موصول کی تھیں۔

فزکس کی پہلی کلاس میں  ایک نوجوان  لیکچرا ر صاحب  نہایت شفقت سے  “Rectangular Component of Vector”

پڑھا رہے تھے۔ لیکچر ایک بار  پھر انگلش میں تھا اور میں سب سے پچھلے  بنچ پر لیکن اب میں کسی انگلش میڈیم والے سے پوچھ نہیں رہا تھااور ہر بات پر سر ہلا رہا تھا۔آخر میں لیکچرار صاحب نے بڑی شفقت سے دو تین بارکہا۔ Any Question ?

میں نے ہاتھ اٹھایا اور اٹک اٹک کر پوچھا            

 ‘Sir what is the meaning of component?

نتیجہ وہی نکلا اب پوری کلاس ہنس رہی تھی اور لیکچرار صاحب بغیر جواب دیے ہوئے مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

یہی سلسلہ کچھ دنوں تک چلتا رہا۔ میرے اسکول اور کالج کے ایک ساتھی جو میرے گھر کے قریب رہتے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کریں لیکچر انگلش میں ہونے  کی وجہ سے سمجھ نہیں آ رہے۔پھر ہم دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کل سے ہم  گھر سےکالج جو تقریباً 45 منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا اکٹھے جائیں گے اور قدرت کے مظاہر پر غور کرتے ہوئے آپس میں ساری گفتگو انگلش میں کریں گے۔ شیکسپیئر کے روح کے تڑپنے سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس نے اور میں نے یہ کام تقریباً ایک مہینہ تک کیا ہم اکٹھے پیدل جاتے اور صرف انگلش میں ہی بات چیت کرنے کی کوشش کرتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اس کے بعد کبھی انگلش لیکچر میں کبھی مشکل نہ رہی۔ اور ہم نےاپنے تئیں ان پرائیویٹ لینگوج سنٹروالوں کا بزنس  بھی تہس نہس کر دیا تھا۔

یہ پریکٹس ہے اور مینٹل اٹیچیوڈہے  جو ہمیں کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ قدرت نے حضرت انسان کو بہت صلاحیتیں دی ہیں یہ ہم پر ہے کہ ہم ان سے کیسے کام لیتے ہیں۔

کالج میں نسبتاً آزادی ملی جو کہ اسکول میں میسر نہیں تھی تو زیادہ ٹائم کھیل تماشے میں ہی گزرا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایف-ایس-سی

میں نے اوریج نمبر وں سے پاس کی جو کسی  بھی صورت اتنے نہیں تھے کہ انجنئیرنگ یونیورسٹی میں ایڈمشن مل سکے۔ یقین کریں کہ اس وقت تک بھی مجھے کچھ خاص اندازہ نہیں تھا کہ انجنئیر کیا  کرتا ہےاور نہ ہی میں نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی۔ میرے بڑے بھائی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ میں نے وہاں اپلائی کر دیا۔نمبر تو اتنے نہیں تھے لیکن چونکہ میں کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تھا لہذا مجھے اسپورٹس کی سیٹ پر ایڈمشن مل گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے ایگریکلچر فیلڈ کے بارے میں صرف اتنا ہی  معلوم  تھا کہ میرے بڑے بھائی یہاں پڑھتے ہیں۔اور یہاں سالانہ اسکالر شپ ملتا ہے۔دو سال گزرنے کے بعد میں نے  ایگریکلچر کے باون شعبوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔میں نے ان باون شعبوں میں سے ایگریکلچر اکنامکس کا انتخاب کیا ۔۔وجہ بنی اس وقت کے کئیر ٹیکر وزیراعظم معین قریشی صاحب۔۔۔۔۔

اتفاق سے میں نے ٹیلیویژن پر ان کی تقاریر  دیکھیں تھیں اور میں  ان سے بہت متاثر ہوا تھا چونکہ ان کا شعبہ اکنامکس تھا لہذا میں نے ایگریکلچرل اکنامکس کا انتخاب کیا۔

انہیں دنوں میں اپنے ایک کالج کے وقت کے دوست سے ملنے اس کے گھر گیا وہاں ان کے والد محترم سے ملاقات ہوئی انھوں نے مجھ سے بڑے پیارسے پوچھا بیٹا آج کل کیا کر رہے ہو؟ میں نے انتہائی فخریا انداز میں کہا کہ میں ایگریکلچرسٹ بن رہا ہوں۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے تھے یکا یک مجھے گھورنے لگے ۔۔اور تھوڑی دیر بعد صرف اتنا بولے کہ” پاکستان میں جس کے جہاں سینگ سمائیں وہ وہیں سما جاتا ہے”۔مجھے تو اس وقت  تو سمجھ نہیں آئی لیکن  یہ محاورہ یاد رہ گیا۔

میرے بڑے بھائی ایگریکلچر یونیورسٹی سے سوائل سائینس کے شعبہ سے فارغ التحیل ہونے کے بعد فارما پروفیشن میں میڈیکل ریپ بھرتی ہو چکے تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سوائل سائینس کا  اسٹوڈنٹ فارما پروفیشن میں تھا۔ میں ان دنوں اپنے فائنل سمسٹر کا امتحان دے چکا تھا  ایک دن میرے بھائی نے مجھ سے کہا کہ کل یونیورسٹی جاؤ تو میرے  پرانے  کلاس فیلو کو یہ میسج دے دینا کہ فلاں تاریخ پے فلاں جگہ پر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں میڈیکل ریپ کے انٹرویو ہو رہے ہیں اگر وہ  اپلائی کرنا چاہتا ہے  تو اپلائی کر دے۔میں نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ میں کیوں نہ اپلائی کر دوں انھوں نے مجھے منع کیا۔ لیکن میں نے اپلائی کر دیا ۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ میں ان کے  سیلیکشن کے پراسس کے ہر مرحلے میں کامیاب ہوتا رہا اور سیلکٹ بھی ہو گیا۔

کمپنی ملٹی نیشنل تھی اور منیجر صاحب بھی کافی سینیئر اور اچھے تھے انھوں نے کچھ دن بعد مجھے بتایا کہ منتھلی میٹنگ ہے اور آپ نے لاہور جا کر اٹینڈ کرنی ہے آپ لاہور کے جہاز  کے ٹکٹ لے لیں کمپنی آپ کو پیسے دے دے گی۔ میرے لئیے جہاز کا سفر بہت بڑی چیز تھی ۔ میں لاہور چلا گیا اور وہاں میٹنگ میں ہیڈ آفس کے سینئیر ز سے مل کر انتہائی  مرعوب بھی ہوا۔ خاص طور پر نیشنل سیلز منیجر صاحب سے۔ میں نے ان سے ہمت کر کے پوچھا کہ سر میں نیا سیلکٹ ہوا ہوں کمپنی با قاعدہ ٹریننگ کب تک کروائے گی؟ انھوں نے بڑی شفقت سے کہا کہ کئی سال پہلے وہ بھی میری طرح  میڈیکل ریپ کے طور پر آے تھے اور ترقی کر کے آج نیشنل سیلز منیجر کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔پھرکہنے لگےکہ آپ کا شمار ایسے لوگوں میں ہم سمجھتے ہیں جن کو پانی کے تالاب میں ڈال دیا جائے تو وہ خود بہ خود تیرنا سیکھ کر کنارے تک پہنچ جائیں گے۔ یہ سن کرتو میں  گویا ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔

میرا کوئی بھی باقاعدہ ٹریننگ سیشن نہیں ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں لفظSynthesis پڑھتا تھا تو مجھ سے بولا ہی نہیں جاتا تھا اور مطلب تو  پتہ ہی نہیں تھا۔ میں اگر یہ کہوں کہ آج تک میں باقاعدہ ٹریننگ سیشن سے محروم رہا تو شاید  غلط نہیں ہوگا۔ پاکستان میں گنتی کی چند ایک ہی  کمپنیز ہیں جو کہ باقاعدہ ٹریننگ سیشن کرواتی ہیں۔ زیادہ تر میڈیکل ریپ اپنے سینئیر  زسے، اپنے ساتھیوں سے اور یا پھر  چند  ڈاکٹروں سے پوچھ پوچھ کر سیکھتے تھے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت  بھی میسر نہیں تھی۔

میری طرح بہت سے لوگ  اسی طرح فارما پروفیشن میں آتے ہیں۔ اور اس پروفیشن کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ اپنے پاس آنے والے کو دل و جان سے اپناتا ہے۔ کسی سے یہ نہیں پوچھتا کہ تمہارے پاس سفارش ہے یا نہیں۔ بلکہ یہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے بلکہ جو میری طرح جوصابن دانی تک  نا چلا سکتا ہو وہ ایک دن 1800 سی سی  کی اپنی ذاتی  کارچلا رہا ہو۔ میں ایک ایسے لڑکے کو بھی جانتا ہوں جو کہ بس کنڈیکٹر تھا اور اس پروفیشن میں آنے کے بعد ترقی کر کے وہ آج ایک بڑی کمپنی میں جی-ایم کی پوسٹ پر کام کر رہا ہے۔ فارما میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ لہذا جو خواب آپ نے اپنے اور اپنے چاہنے والوں کے لئیے دیکھ رکھے ہیں فارما پروفیشن سے آپ ان خوابوں کو پورا کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لئیے آپ کو بہت محنت کرنی ہوگی۔

 

Zulfiqar Ali Qureshi

Business Consultant, Trainer,  Blogger, Author and a speaker!

This Post Has 5 Comments

  1. Zeeshan Atta

    I need a medical rep working

  2. Abdul saboor

    بہت ہی اچھی تحریر جو حقیقت پر مبنی ہے انتہائی متاثر کن اور بےشمار
    علم بھی ملا۔میں بھی فارما پروفیشن سے ہی ہو اور امید کرتا ہو کے آپ ایسی تحریریں اس پروفیشن سے جڑے لوگوں کی حوصلہافزائی کے لیے جاری رکھے گے۔

  3. Anonymous

    Very impressive

Leave a Reply